Please Like and Follow my Page
About 3000 km away from
Madinah is a quiet area called Madinah Saleh. Hazrat Saleh's people lived in
this area. This nation is also called the nation of Thamud. These people were
contemporaries of the people of Hud. The nation of Hazrat Hud (AS) is called
the nation of Aad, whose remains are now found in the deserts of Bahrain.
The scream of an angel
sent by the command of Allah was so intense that their hearts burst and they
died lying in their homes. Their powerful bodies seemed to disappear like dust
and they could not be as powerful as Allah but because Allah is the most
powerful and created the whole universe.
Hazrat Lut (AS) was a
contemporary of Hazrat Abraham. He explained a lot to his people but they did
not give up. Allah sent His angels to Hazrat Lut (AS) and he told Hazrat Lut
(AS) to stay some night and leave here with his family. Allah has said in the Holy
Qur'an that the time of our torment is morning and is morning some distance
away?
The angels insisted, but
no one looked back. So at the time of dawn Allah rained down stones and fire on
the people of Lot and Allah said in the Quran that We rained down upon them
layers of pebbles and raised the whole town from the bottom to the top. Today,
modern science has proved that when this nation was on earth, it rained meteors
from the constellation Virgo. That hail of stones fell on this nation like
tornadoes. They were happy in their world. Their bones show that they were
subjected to a very painful torment.
The wife of Hazrat Lut
(as) disobeyed the command of Allah Almighty and turned around and saw the city
being destroyed and it turned to stone. Their remains can still be seen in the
Sodom Valley near the Dead Sea.
May Allah Almighty grant
us the strength to walk on the straight path and save us from the Divine
torment. Ameen
اہم معلومات (نافرمان
قوموں کا انجام)
مدینہ منورہ سے کوئی 3000 کلو میٹر دور ایک خاموش علاقہ ہے جس
کو مدائن صالح کہتے ہیں۔ اس علاقے میں حضرت صالح رضی اللہ عنہ کی قوم آباد تھی۔ اس
قوم کو قوم ثمود بھی کہتے ہیں۔ یہ قوم حضرت ہود علیہ السلام کی قوم کے ہم عصر تھے۔
حضور ہود علیہ السلام کی قوم کو قوم عاد کہتےہیں جن کی باقیات آج کل بحرین کے صحرا
ابار میں موجود ہیں۔
چنانچہ قوم صالح یا قوم ثمود نے اللہ سے کفر کیا۔ ان کی
ظاہری خدوخال قد بہت لمبے اور جسامت چوڑے اور بہت طاقتور تھے۔ انہوں نے پہاڑوں کے
اندر اپنے گھر بنا رکھے تھے جو کسی بھی موسمی شدت کا مقابلہ کرسکتے تھے۔ وہ حضرت
صالح علیہ السلام کی تبلیغ کے مقابلے میں کہتے تھے کہ اے صالح ہمارے عظیم الشان
گھروں کو دیکھ۔ کیا ہم بہت زیادہ طاقت والے نہیں؟ اگر ہمارے مقابلے پر کوئی اور
قوم ہے تو ان کو ہمارے مقابلے میں لاؤ پھر پتہ چلے گا کہ کون زیادہ طاقتور ہے لیکن
جب انہوں نے اللہ کی نشانی ایک اونٹنی کو مار ڈالا اور اونٹنی کا بچہ روتا ہوا
چیختا چلاتا ہوا ایک پہاڑی میں گم ہوگیا تو حضرت صالح نے اپنی قوم سے فرمایا کہ 3
دن اپنے گھروں میں فائدہ اٹھا لو۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے اور اللہ کا وعدہ جھوٹا نہیں
ہوگا۔ تو اللہ تعالیٰ نے حضرت صالح علیہ السلام کو اور کچھ لوگوں کو اپنی مہربانی
سے بچا لیا۔ اس قوم کو چنگاڑ نے آپکڑا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔
اللہ کے حکم سے بھیجے گئے فرشتے کی چیخ یا چنگاڑ کی شدت
اتنی زیادہ تھی کہ ان کے کلیجے پھٹ گئے اور وہ اپنے گھروں میں پڑے پڑے ہلاک ہوگئے۔
ان کا طاقتور جسم خاک کی طرح مٹتا دکھائی دیا اور وہ جتنے بھی طاقتور تھے لیکن
اللہ سے زیادہ زور آور نہیں ہوسکتے کیونکہ اللہ سب سے زیادہ طاقتور اور پوری
کائنات کا تخلیق کردہ ہے۔
روایت میں ہے کہ حضرت محمد مصطفی رحمت دوعالم ﷺ اپنے کچھ
اصحاب کے ساتھ اس علاقے سے گزرے۔ حضرت محمدﷺ کے چہرہ انور پر اضطراب تھا اور ایسا
لگتا تھا کہ وہ جلدی میں ہیں۔ وہاں کے
لوگوں نے ایک کنوئیں کا پانی پیش کیا لیکن حضرت محمدﷺ نے اپنے اصحاب کو منع فرما
دیا اور جلد وہاں سے نکلنے کا حکم دیا۔ صحابہ نے اضطراب کی وجہ پوچی تو حضرت محمدﷺ
نے فرمایا کہ یہاں اللہ کا عذاب نازل ہوچکا ہے۔ یہ علاقہ حضرت صالح علیہ السلام کی
قوم کا ہے جس پر اللہ نے سخت عذاب نازل کیا۔ وہاں نہ رکنا اور نہ پانی پینا ایسے
راز ہیں جس کی خبر ہمیں نہیں ہے۔ حضرت محمدﷺ طبیعتاً معصوم ہیں چنانچہ عذاب الٰہی
کا سن کر عام شخص اندر سے دہل جاتا ہے وہ تو اللہ کے رسول ہیں جن کو اللہ کی طاقت
کا بخوبی علم ہے۔ بالکل ایسے ہی قوم لوط علیہ السلام کے ساتھ ہوا۔ وہ لوگ ہم جنس
پرستی جیسے مکروہ کام میں پڑ چکے تھے۔ حضرت لوط علیہ السلام نے ان کو خبردار کیا
لیکن عیش وعشرت اور گناہوں کی لذت میں اس قدر غرق تھے کہ حضرت لوط علیہ السلام کو
ستانا شروع کردیا۔
حضرت لوط علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہم عصر
تھے۔ اپنی قوم کو بہت سمجھایا لیکن وہ باز نہ آئے۔ اللہ نے اپنے فرشتے حضرت لوط
علیہ السلام کی طرف بھیجے اور انہوں نے حضرت لوط علیہ السلام سے کہا کہ کچھ رات
رہے یہاں سے اپنے اہل وعیال کو لے کر نکل جائیں۔ اللہ نے قرآن میں فرمایا ہے کہ
ہمارے عذاب کا وقت صبح ہے اور کیا صبح کچھ دور ہے؟
فرشتوں نے تاکید کی لیکن کوئی شخص پیچھے مڑ کر نہ دیکھے۔
چنانچہ سحر کے وقت قوم لوط پر اللہ نے آسمان سے پتھروں اور آگ کی بارش کردی اور
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے ان پر تہہ در تہہ کنکریاں برسائیں
اور پوری بستی کو نیچے سے اوپر کردیا۔ آج جدید سائنس نے اس بات کو ثابت کردیا ہے
کہ جب یہ قوم زمین پر تھی اس وقت برج سنبلہ سے شہاب ثاقبوں کی بارش ہوئی تھی۔ وہ
پتھروں کی بارش آگ کے بگولوں کی طرح اس قوم پر نازل ہوئی تھی۔ یہ اپنی دنیا میں
مگن تھے ان کی ہڈیوں سے پتہ چلتا ہے کہ انتہائی کرب ناک عذاب کی زد میں آگئے تھے۔
حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی
خلاف ورزی کی اور مڑ کر پیچھے تباہ ہوتا شہر دیکھنے لگی اور وہی پتھر کی ہوگئی۔ ان
کی باقیات آج بھی بحیرہ مردار کے پاس وادی سدوم میں دیکھی جا سکتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے بتائے ہوئے سیدھے راستے پر چلنے کی
توفیق عطا فرمائے اور عذاب الٰہی سے بچائے رکھے۔ آمین یا رب العالمین