Friday, August 27, 2021

افغانستان کی صورتحال اور عالمی امہ کا کردار

Peoples stand outside their homes as Taliban enter Kabul.
افغانستان میں صورتحال ہر گزرتے دن کے ساتھ تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔ امریکہ اور نیٹو افواج کا انخلا مکمل ہونے کے قریب کی اطلاعات ہیں۔ غیر ملکی سفارتخانوں کا عملہ بھی اپنے اپنے وطن کو روانہ ہو چکا ہے۔ افغانستان میں غیر یقینی اور خوف کی فضا چھائی ہوئی ہے۔ اس صورتحال کو قابو کرنے اور معاملات سنبھالنے میں افغانستان کی سکیورٹی فورسز کا کردار تجزیہ نگاروں کے مطابق غیر متوقع طور پر مایوس کن رہا ہے اور حالیہ دو تین روز میں پورے ملک میں کوئی مزاحمت ہوتی نظر نہیں آئی اور طالبان نے بغیر لڑے ہی اپنے اہداف آسانی سے حاصل کر لیے ہیں۔ آغاز میں سرکاری فوجوں نے طالبان کا مقابلہ کیا تھا جس سے محسوس ہونے لگا کہ طالبان کے لئے آگے بڑھنا اتنا آسان نہیں ہوگا جتنا تصور کیا جارہا ہے اور انہیں سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن حالات میں تبدیلی آنا شروع ہو گئی اور سرکاری فوج کی جانب سے مزاحمت کم ہوتی گئی۔ بگڑتی ہوئی صورتحال اور معاملات ہاتھ سے نکلتے ہوئے دیکھ کر افغانستان کے صدر اشرف غنی نے افغان فوج کے سربراہ کو ہٹا دیا اور نیا آرمی چیف مقرر کیا لیکن بات پھر بھی نہ بنی اور یہ فیصلہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوا۔ طالبان کی بڑھتی ہوئی پیش قدمی نے افغان صدر اشرف غنی کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کردیا اور وہ صدارتی محل سے بھاگ نکلے اور طالبان نے افغان صدارتی محل پر اپنا کنٹرول سنبھال لیا۔

     حیران کن بات یہ ہے کہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں افغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ طالبان کے ساتھ مذاکرات بھی کرتے رہے جبکہ گرائونڈ پر طالبان جنگجو اپنی پوزیشن مستحکم کرتے چلے جاتے رہے۔ اگلے روز چمن سے متصل باب دوستی گیٹ کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد طالبان نے طورختم بارڈر پر بھی مکمل کنٹرول حاصل کرلیا اور بارڈر بند کردیا گیا۔ ادھر پاکستان نے بھی کسی قسم کے خطرے کے پیش نظر پاک افغان بارڈر کو بند کردیا۔ سکیورٹی حکام ہائی الرٹ اور افغانستان میں تبدیل ہوتی صورتحال پر نظر رکھتے ہوئے تھے۔ طورخم بارڈر پر پاکستان نے پہلے ہی 6 گیٹس بند کردیئے تھے۔

                                                                                  افغانستان اپنی تاریخ کے نئے موڑ پر کھڑا ہوا ہے۔ آگے حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں اور اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اس کا دارومدار طالبان اور ان کے حریف گروپوں کے طرز عمل پر ہوگا۔ افغانستان وہ بدقسمت ملک ہے جو کم از کم چالیس پینتالیس برس سے جنگ کی آگ میں بری طرح جھلس رہا ہے۔ روسی مداخلت، خانہ جنگی، مجاہدین کا قبضہ، امریکہ کا خوفناک ترین حملہ، سب کچھ ہمارے سامن ہے۔ بیس برس میں امریکہ نے 22 ٹریلین ڈالر اس جنگ میں جھونک دیئے ہیں۔ 80 بلین ڈالر سے افغان مقامی فوج تیار کی مگر بالآخر ملا کیا؟ آج پوری افغان فوج طالبان کے ہاتھوں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے۔

افغان عوام کی بہت بڑی تعداد کابل ایئرپورٹ پر کھڑی ہے

                امریکہ نے 20 سال تک افغانستان میں قتل وغارت کا بازار گرم کرنے کے بعد 11 ستمبر کو اپنی تمام فوجیں افغانستان سے نکالنے کا اعلان کیا تھا جس سے بڑے بڑے دارالحکومتوں میں کھلبلی مچ گئی تھی اور اس خدشے کا اظہار کیا گیا کہ افغان حکومت اب چند ہفتوں کی مہمان ہے اور انخلا سے پہلے اگر شراکت داروں میں اقتدار میں شرکت کا کوئی معاہدہ طے نہ پایا تو بدترین خانہ جنگی شروع ہو جائے گی۔ افغانستان کی تاریخ میں ایک ایسا ہی موڑ 1988 میں آیا تھا جب دس سال خونریز جنگ کے بعد سوویت یونین بدترین شکست سے دوچار ہوکر جلد سے جلد افغانستان سے نکل جانا چاہتا تھا۔ اس دوران جنرل ضیاء الحق پاکستان کی کمان سنبھالے ہوئے تھے۔ وہ افغانستان میں سوویت یونین کی طرف سے فوجی یلغار کا خطرہ بہت پہلے بھانپ چکے تھے۔ انہوں نے جولائی 1979ئ میں امریکی صدر جمی کارٹر کو خط کے ذریعے افغانستان میں سوویت یونین کی فوجوں کی متوقع یلغار کی طرف توجہ دلائی مگر ان کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا۔ جب دسمبر 1979ئ میں افغانستان پر روس کا حملہ ہوا تو چند ماہ بعد امریکی صدر کے سکیورٹی ایڈوائزر Zbigniew Brzezinski جنرل ضیاء الحق سے ملنے آئے۔ وہ بتا رہے تھے کہ روس کی تاریخ یہ ہے کہ وہ جس ملک میں ایک بار داخل ہوا، اس پر قابض رہا۔ اس لئے ہماری یہ پوری کوشش ہوگی کہ وہ ڈیورنڈ لائن عبور کرکے پاکستان میں داخل نہ ہوسکے۔ جنرل ضیاء نے پراعتماد لہجے میں کہا کہ ہم افغان مجاہدین کی ہر طرح سے مدد کریں گے، عالمی سطح پر سفارت کاری کو بروئے کار لائیں گے اور آپ کے عملی تعاون سے سوویت یونین کو دریائے آمو سے پرے دھکیل دیں گے۔ پھر ایسا ہی ہوا۔ جنرل ضیائ الحق نے پوری امت مسلمہ میں افغان کاز کے لئے روح پھونکی، اقوام متحدہ کے 125 کے لگ بھگ ملکوں میں افغان کی جنگ مزاحمت کے لئے زبردست ہمنوائی پیدا کی۔ امریکہ سے اسٹنگز میزائل حاصل کیے اور تاریخ میں پہلی بار سوویت یونین کو افغانستان سے دستبردار ہونا پڑا لیکن فوجوں کے باقاعدہ انخلا سے پہلے انہوں نے روسی، امریکی اور اپنی سیاسی قیادت کو یہ سمجھانے کی بھرپور کوشش کی کہ افغانستان میں ایسی وسیع البنیاد حکومت قائم نہ کی گئی تو افغانستان میں طویل عرصے تک بڑے خوفناک اثرات مرتب ہوں گے۔ اس وقت امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور بن جانے کا اعزاز جلد سے جلد حاصل کر لینا چاہتا تھا اس لئے جنرل ضیاء الحق طیارے کے حادثے میں راستے سے ہٹا دیئے گئے۔

                آج طالبان دوبارہ افغانستان پر قابض ہو چکے ہیں اور امریکہ کے سہارے کھڑی افغان فوج طالبان سے لڑنے کی بجائے ہتھیاروں سمیت ان میں شامل ہو رہی ہے۔ ہزاروں فوجی پناہ لینے تاجکستان چلے گئے ہیں۔ کابل سے محض 40 میل کے فاصلے پر واقع بلگرام ایئر بیس جو امریکی طاقت کا مرکز تھا، اسے چند روز پہلے خالی کر کے امریکی فوجی افغان فورس کے کمانڈر کو بتائے گئے وہاں سے نکل گئے اور جو چند سو لوگ بچے ہیں وہ ایئر بیس پر موجود ہیں اور واپسی کیلئے منتظر ہیں۔