A global research on the
world of journalism has been released under the name of "Pandora
Papers" in which the offshore companies of the world's leading and
powerful personalities have been exposed. Pandora Papers mentions the offshore
companies of more than 700 Pakistanis, including 600 journalists from 150
organizations, including Pakistan's Finance Minister Shaukat Tareen, Senator
Faisal Wavda, Sharjeel Memon and Monis Elahi.
The ICIJ Media Consortium
was published on Sunday, featuring heads of more than a dozen countries,
including the King of Jordan and the Prime Minister of Kazakhstan, King
Abdullah II of Jordan, the Prime Minister of the United Kingdom Tony Blair, the
President of Montenegro, the President of Chile and the President of Lebanon.
The names of celebrities from 117 countries, including the Prime Minister, the
Minister of Economic Affairs of Brazil, a close friend of Russian Prime
Minister Putin, and celebrities from India.
Colombian pop singer
Shakira's name is also on the list. Shakira has been involved in tax evasion
cases before because she lived in Barcelona from 2011 to 2014 but did not pay
her taxes, which caused her problems.
If we talk about the Indian
government, it is impossible for Indians to get off the list with the Modi
government. The recently released Pandora Papers include the names of more than
300 Indians, including India's famous businessman Anil Ambani and Indian
cricket superstar Sachin Tendulkar. According to Indian media, investigations
have been launched against 60 of the people on the list, whose report will be
made public in the next few days.
Now let's talk about why
Pandora Papers were needed and why ICIJ, an international organization called
the International Consortium of Investigative Gentile Journalists, needed these
names to be made public. The question also arises as to who are the people who
support this organization and with whose help this list was made.
The ICIJ named its
investigation Pandora Papers because it exposed the secret assets and
transactions of elites around the world. It's basically a Greek word that means
to bring up something that can cause problems for many people. Now the second
question is why the need for Pandora Papers arose. The Pandora Papers include
the names of more than 300 world leaders. Now the presidents and prime
ministers of the countries whose names are included in this list will create
chaos and chaos in the country and the people of these countries will launch a
movement against the president and prime minister of their country. Every
effort will be made to remove him from the ministry.
The question also arises
as to who gave these names to ICIJ? ICIG says the 14 financial companies that
provided the data included two companies, Alcogal and Trident Trust, who were
clients of those companies and had most of their assets in the British Virgin
Islands and Panama, are registered. Alcogal is headquartered in Panama, which
has previously released a list under the Panama Papers listing the presidents,
prime ministers and celebrities of more than a dozen countries.
Difference between Pandora Paper and Panama Paper
ICIJ claims that the
Pandora Paper is the result of the largest joint journalistic investigation in
history. In 2016, the Panama Paper mentioned celebrities from all over the
world who illegally amassed assets and kept them hidden to avoid paying taxes
to the government and to deceive the public because politicians are the ones who
own all these assets. The money was being made by looting, so the money was
used in foreign countries and rented out to them and the money earned from
there was brought to their use. According to the Associated Press, Pandora
Paper has revealed more details than the Panama Paper released in 2016.
ICIJ says the Pandora
Papers have three terabytes of data, while the Panama Papers previously
released had a data of 2.6 terabytes. The Panama Papers caused more havoc than
the Pandora Papers, and the Panama Papers resulted in police crackdowns around
the world. In many countries, prime ministers, presidents, and ministers have
faced lawsuits, including Iceland and Pakistan There are prime ministers who
have lost their ministry.
Are Offshore Companies
Illegal? Not at all doing business with offshore companies is not illegal in
most countries. People who do business internationally consider offshore
companies as their necessity to run their financial affairs, but this will only
be legal if the money invested in these companies has been legally transferred and
the government has to provide statistics and The money has been transferred by
paying their taxes, but if the money has been transferred through fraud, fraud
and theft and the government has not paid its taxes, then the money invested in
the offshore company is illegal. Will imagine
آئی سی آئی جے
کی حقیقت
دنیائے صحافت کی ایک عالمی تحقیق "پینڈورا پیپرز"
کے نام سے جاری کی گئی ہے جس میں دنیا کی معروف اور طاقتور شخصیات کی آف شور
کمپنیاں منظر عام پر لائی گئی ہیں۔ پینڈورا پیپرز میں 150 اداروں سے تعلق رکھنے
والے 600 صحافیوں سمیت پاکستان کے وزیر خزانہ شوکت ترین، سینیٹر فیصل واوڈا، شرجیل
میمن، مونس الٰہی سمیت 700 سے زائد پاکستانیوں کی آف شور کمپنیاں کا ذکر کیا گیا
ہے۔
آئی سی آئی جے میڈیا کنسورشیم اتوار کو شائع کی گئی جس میں بہت سے درجن سے زائدممالک کے سربراہ
بشمول اردن کے بادشاہ اور قازقستان کے وزیراعظم، جارڈن کےبادشاہ عبداللہ دوئم،
برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر، مونٹی نگرو کے صدر، چلی کے صدر، لبنان کے
صدروزیراعظم، برازیل کے وزیر اکنامک، روسی وزیراعظم پیوٹن کے قریبی دوست، انڈیا کی
مشہور شخصیات سمیت 117 ممالک کی مشہور
شخصیات کے نام شامل ہیں۔
کولمبیا سے تعلق رکھنے والی پاپ سنگر شکیرا کا نام بھی لسٹ
میں شامل ہے۔ شکیرا اس سے قبل بھی ٹیکس چوری کے مقدمات میں شامل رہی ہیں کیونکہ
شکیرا 2011 سے 2014 تک بارسلونا میں قیام پذیر رہیں لیکن انہوں نے اپنا ٹیکس ادا
نہیں کیا جس کی وجہ سے انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
اگر بات کریں بھارت سرکار کی تو مودی حکومت کے ہوتے ہوئےیہ
ناممکن ہے کہ بھارتی افراد اس لسٹ سے نکل جاتے۔ حال ہی میں جاری ہونے والے پینڈرا
پیپرز میں بھارت کے مشہور بزنس مین انیل امبانی، بھارتی کرکٹ سپرسٹار سچن ٹنڈولکر
سمیت 300 سے زائد ہندوستانیوں کا نام شامل ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق لسٹ میں شامل
افراد میں سے 60 افراد کے خلاف تحقیقات کی گئی ہیں جن کی رپورٹ آئندہ چند روز میں
منظرعام پر لائی جائے گی۔
اب بات کرتے ہیں کہ پینڈورا پیپرز کی ضرورت پیش کیوں آئی
اور آئی سی آئی جے بین الاقوامی تنظیم جسے (انٹرنیشنل کنسورشیم آف انوسٹی گیشن
گیٹیو جرنلٹس) کا نام دیا گیا ہے، کو کیا ضرورت پیش آئی کہ ان افراد کا نام
منظرعام پر لایا گیا۔ یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس تنظیم کو سپورٹ کرنے والے
افراد کون سے ہیں جن کی مدد سے یہ لسٹ بنائی گئی۔
آئی سی آئی جے نے اپنی تحقیقات کا عنوان پینڈورا پیپرز اس
لئے رکھا کہ اس میں دنیا بھر کے اشرافیہ کے خفیہ اثاثوں اور لین دین کو بے نقاب
کیا گیا ہے۔ بنیادی طور پر یہ یونانی لفظ ہے جس سے مراد کسی چیز کو سامنے لانا ہے
جو کئی لوگوں کے لئے مسائل پیدا کرسکتی ہے۔ اب دوسرا سوال یہ کہ پینڈورا پیپرز کی
ضرورت پیش کیوں آئی۔ پینڈورا پیپرز میں 300 سے زائد عالمی رہنماؤں کے نام شامل
ہیں۔ اب جن جن ممالک کے صدور اور وزیراعظم کے نام اس لسٹ میں شامل ہیں ان ممالک
میں افراتفری کا سماع پیدا ہوگا اور ملک میں انتشار کی فضا قائم ہوگی اور ان ممالک
کے عوام اپنے ملک کے صدر و وزیراعظم کے خلاف تحریک چلائیں گے اور ان کو وزارت کی
کرسی سے ہٹانے کیلئے سرتوڑ کوشش کی جائے گی۔
یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ آئی سی آئی جے کو یہ نام
دیئے کس نے؟ آئی سی آئی جی کا کہنا ہے کہ انہیں جن 14 مالیاتی کمپنیوں نے ڈیٹا فراہم
کیا ہے اس میں الکوگل اور ٹرائڈنٹ ٹرسٹ نامی دو کمپنیاں شامل ہیں اور یہ افراد ان
کمپنیوں کے کلائنٹ تھے اور ان کے زیادہ تر اثاثے برٹش ورجن آئی لینڈ اور پاناما
میں رجسٹرڈ ہیں۔ الکوگل کا ہیڈکوارٹر پانامہ میں ہے جو اس سے قبل پانامہ پیپرز کے
نام سے لسٹ جاری کرچکا ہے جس میں درجن سے زائد ممالک کے صدر، وزیراعظم اور دنیا
بھر کی مشہور شخصیات کے نام شامل تھے۔
پینڈرا پیپر اور پانامہ پیپر میں فرق
آئی سی آئی جے کا دعویٰ ہے کہ پینڈورا پیپر تاریخ کی سب سے
بڑی مشترکہ صحافتی تحقیقات کے نتیجے میں سامنے آیا ہے۔ سن 2016ء میں پانامہ پیپر
نے پوری دنیاکی نامور شخصیات کا ذکر کیا جنہوں نے غیر قانونی طریقے سے اپنے اثاثے
بنائے اوران اثاثوں کو پوشیدہ رکھا گیا تاکہ انہیں حکومت کو ٹیکس دینے سےچھٹکارا
مل سکے اورعوام کو بھی دھوکے میں رکھا گیا کیونکہ سیاستدان یہ ساری جائیدادیں عوام
کے پیسوں کو لوٹ کر بنائی جاتی رہی ہیں اس لئے اس پیسے کو غیر ملکی ممالک میں
استعمال کر کے انہیں کرایہ پر دیا گیا اور وہاں سے حاصل ہونے والے پیسوں کو اپنے
استعمال پر لایا گیا۔ خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق پینڈورا پیپر 2016
میں جاری کردہ پانامہ پیپر سے بھی زیادہ بڑے پیمانے پر تفصیلات سامنے لایا ہے۔
آئی سی آئی جے کا کہنا ہے کہ پینڈورا پیپرز کا ڈیٹا تین ٹیرا بائٹس کا ہے جبکہ اس سے قبل
جاری ہونے والے پاناما پیپرز کا ڈیٹا 2 اعشایہ 6 ٹیرا بائٹس تھا۔ پینڈورا پیپر کے
مقابلے میں پانامہ پیپرز نے زیادہ تباہی مچائی اور پانامہ پیپرز کے نتیجہ میں دنیا
کے مختلف ممالک میں پولیس کارروائیاں کی گئیں۔کئی ممالک میں وزرائے اعظم، صدور اور
وزیروں کو عدالتی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑا ان میں سرفہرست آئس لینڈ اور
پاکستان کے وزرائے اعظم ہیں جن کو اپنی وزارت گنوانی پڑی۔
کیا آف شور کمپنیاں غیر قانونی ہیں؟ بالکل بھی نہیں۔ اکثر ممالک میں آف شور کمپنیوں
سے کاروبار کرنا غیر قانونی نہیں۔ بین الاقوامی سطح پر کاروبار کرنے والے لوگ اپنے
مالیاتی امور چلانے کے لئے آف شور کمپنیوں کو اپنی ضرورت قرار دیتے ہیں لیکن یہ
تبھی قانونی تصور ہوگا جب ان کمپنیوں میں لگایا گیا پیسا قانونی طریقے سے ٹرانسفر
کیا گیا ہو اور حکومت کو اعدادوشمار بتا کر اور ان کا ٹیکس ادا کر کے یہ پیسہ
ٹرانسفر کیا گیا ہو لیکن اگر یہ پیسہ دھوکہ دہی، فراڈ اور چوری سے ٹرانسفر کیا گیا
ہو اور حکومت کو اس کا ٹیکس بھی ادا نہ کیا گیا ہو تو پھر آف شور کمپنی میں لگایا
گیا پیسہ غیر قانونی تصور ہوگا۔