Tuesday, September 14, 2021

The concept of dowry in Islam

Dowry is derived from the Arabic word 'ship' which means equipment or application. The equipment that the traveler needs during the journey to take the woman home and transport the deceased to the grave. The other two things are not known but the dowry given to the girl on her leave is a strange thing. It is believed that when a girl gets married, her parents gladly give her daughter some equipment as a gift, which is wrong to attribute to Islam because there is no concept of dowry in Islam. Even at the time of marriage, no expenses are incurred on the girl's family, but on the boy's family. Don't be so burdened.

          In Islam, men are given superiority, so one of the reasons for this superiority is that men spend money on women. In Islam, the method of giving equipment to a woman, not to the girl's family, but to the boy's family on the occasion of marriage, has been prescribed, ie a dowry has been fixed for it. Allah the Almighty has said in His Holy Qur'an: (Surat an-Nisa ': 34)

          Nowhere in the Qur'an and Hadith is it said that dowry is a part of Islam. This is an ignorant ritual of the Hindus because the Hindus had no share in the inheritance of the girl, so at the girl's wedding her parents would give her some household items to please her and then the girl would take something from her parents' inheritance. Did not give If the girl's father-in-law had a fight with her, she would not get any benefits from her parents' house. If the girl's husband had died, she would have been burnt to death with her husband or would have been a widow all her life, no one would have married her and she would not have been allowed to remarry. All these rituals were created by Hindus which were unfortunately adopted by Muslims and nurtured so much that new generations started accepting it as a part of Islam.

          This proves that the equipment given by Hazrat Muhammad SAW to Syeda Fatima R.A was from the money of Hazrat Ali's (R.A) Mahr Mubarak. The Holy Prophet married four daughters and did not give dowry to anyone. If the Holy Prophet had given dowry to Hazrat Fatima, other daughters would also have been given. This proves that there is no place for a curse like dowry in Islam. There is nothing wrong with giving your daughter whatever she wants, but it is not right to call her part of Islam. The worst effect of the curse like dowry is on the poor parents who do not dare to give too much to their daughter and that is why the daughter of the poor stays at home due to lack of dowry and any so-called honorable The family avoids making the poor man's daughter their daughter-in-law.

          In Islam, daughters are given the right to inherit. They are not deprived of the right of inheritance by giving dowry like Hindus. Even if a parent gives equipment to his daughter for marriage, the girl is still given her share in the inheritance because in Islam it is commanded to give the daughter a share in the inheritance. What a shame that when a man reaches out to a woman and her family for dowry, isn't it an insult to her manhood? Parents become poor in marrying their daughter. In order to maintain their dignity, every parent gives a dowry to their daughter beyond her means at marriage so that her dignity and respect in the society can be maintained. They raise their children first and then take a loan to marry them and spend their whole lives in debt repayment. This is a moment of reflection for an Islamic society.

          Today we need to avoid the curse of dowry and there is a lesson for all these parents that there is no concept of dowry in Islam so marry your daughter in a place where their daughter is honored without dowry and the boy's parents Instead of selling their son and weighing someone else's daughter in dowry, they should bring their daughter home so that a prosperous society can come into existence and they can be prosperous for the Hereafter by following the teachings of Islam.

اسلام میں جہیز کا تصور

جہیز عربی زبان کے لفظ ’جہاز ‘سے نکلا ہے جس کے معنی سازوسامان یا اطلاق کے ہیں۔ وہ سازوسامان جس کی مسافر کو دوران سفر عورت کو گھر سنبھالنے اور میت کو قبر تک پہنچانے کے لئے ضرورت ہوتی ہے۔ باقی دو باتوں کا تو معلوم نہیں لیکن یہ جو لڑکی کی رخصتی پر اسے جہیز دیا جاتا ہے یہ کچھ عجیب سی بات ہے۔ یہ بات ماننے میں آتی ہے کہ جب لڑکی کی شادی ہوتی ہے تو اس لڑکی کے ماں باپ اپنی خوشی سے تحفے کے طور پر اپنی بیٹی کو کچھ سازوسامان دیتے ہیں جسے اسلام سے منسوب کرنا بالکل غلط ہے کیونکہ اسلام میں جہیز کا کوئی تصور موجود نہیں ہے۔ یہاں تک کہ شادی پر ہونےو الا کسی بھی قسم کا خرچہ لڑکی کے گھر والوں پر عائد نہیں ہوتا بلکہ لڑکے والوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ لڑکی کے گھر بارات لے کر جائیں تو کم از کم لوگوں کو لے کر جائیں تاکہ لڑکی والوں پر اتنا بوجھ نہ پڑے۔

                اسلام میں مرد کو برتری دی گئی ہے تو اس برتری کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مرد عورت پر مال خرچ کرتا ہے۔ اسلام میں شادی کے موقع پر لڑکی کے گھر والوں کو نہیں بلکہ لڑکے والوں کو عورت کو سازوسامان دینے کا طریقہ بتایا ہے یعنی اس کے لئے حق مہر مقرر کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی پاک کلام قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے کہ ’’کیونکہ اللہ نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے (بھی) کہ مرد (ان پر) اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔ (سورۃ النسا:34)

                قرآن و حدیث میں کسی بھی جگہ موجود نہیں کہ جہیز دین اسلام کا حصہ ہے۔ یہ ہندوئوں کی ایک جاہلانہ رسم ہے کیونکہ ہندوئوں میں لڑکی کا وراثت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا تھا اس لئے لڑکی کی شادی پر اس کے والدین اسے خوش کرنے کے لئے چند گھریلو سازوسامان دے دیتے تھے اور پھر لڑکی کا اپنے والدین کی وراثت سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔ اگر لڑکی کے سسرال میں اس کی لڑائی ہو جائے تو اس کو والدین کے گھر سے کوئی مراعات نہیں ملتی تھی۔ اگر اس لڑکی کا شوہر مر جاتا تو وہ شوہر کے ساتھ ہی جل کر مر جاتی یا پھر ساری زندگی بیوہ بن کر گزارتی، اس کے ساتھ کوئی شادی نہ کرتا اور نہ ہی اسے دوسری شادی کی اجازت ہوتی تھی۔ یہ تمام رسومات ہندوئوں کی پیدا کردہ تھی جو بدقسمتی سے مسلمانوں نے اپنا لیں اور اسے اتنا زیادہ پروان چڑھایا کہ اسے نئی آنے والی نسلیں اسلام کا حصہ ماننے لگ گئیں۔

                جہیز دینے کی ایک اور وجہ جو مسلمان یہ کہہ کر اپناتے ہیں کہ حضور اکرمﷺ نے حضرت بی بی فاطمہ کو بھی رخصتی کے وقت ایک پیالہ، جائے نماز اور چند ضرورت کی اشیا جہیز کے طور پر دی تھیں جو کہ بالکل غلط بات ہے۔ اس پر روایات موجود ہیں کہ جب حضرت علیؓ نے رسول اللہﷺ سے حضرت فاطمہ الزہراؓ سے شادی کی درخواست کی تو رسول اللہ ﷺ نے پوچھا، تمہارے پاس حق مہر کے لئے کیا ہے؟ حضرت علیؓ نے جواب دیا کہ کچھ نہیں۔ آپؐ نے فرمایا! تمہاری ’زرہ‘ کدھر ہے؟ اسے فروخت کرو جس پر حضرت علیؓ نے اپنی زرہ حضرت عثمانؓ کو 480 درہم میں فروخت کردی۔ بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ حضرت عثمانؓ نے وہ ذرہ خریدی اور بعد میں حضرت علیؓ کو تحفتاً ہدیہ کردی۔ حضرت علیؓ نے زرہ کی قیمت لے کر حضورﷺ  کی خدمت میں پیش کی۔ آپؐ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو حضرت سلمان فارسیؓ اور حضرت بلالؓ کو بلایا اور کچھ رقم انہیں دے کر کہا کہ حضرت فاطمہؓ کے لئے گھر کی ضروری اشیا خرید لائو اور اس میں سے کچھ درہم حضرت اسماؓ کو دیے کہ اس سے خوشبو اور عطر کا انتظام کرو اور جو درہم باقی بچے وہ ام سلمہؓ کے پاس رکھ دیے گئے۔

                اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حضور اکرمﷺ نے حضرت فاطمہؓ کو جو سازوسامان دیا وہ حضرت علیؓ کی مہر مبارک کی رقم میں سے تھا۔ حضور پاکﷺ نے چار بیٹیوں کی شادیاں کیں اور کسی کو بھی جہیز نہیں دیا۔ اگر حضور پاکﷺ  حضرت فاطمہؓ کو جہیز دیتے تو دوسری بیٹیوں کو بھی دیا جاتا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام میں جہیز جیسی لعنت کی کوئی گنجائش نہیں۔ اپنی بیٹی کو خوشی سے جو مرضی دیں اس میں کوئی روک ٹوک نہیں ہے لیکن اسے اسلام کا حصہ کہنا درست نہیں۔ جہیز جیسی لعنت کا سب سے زیادہ اثر غریب والدین پر ہوتا ہے جو اپنی بیٹی کو بہت زیادہ اشیا دینے کی ہمت نہیں رکھتے اور اسی وجہ سے غریب کی بیٹی جہیز نہ ہونے کی وجہ سے گھر بیٹھی رہ جاتی ہے اور کوئی بھی نام نہاد عزت دار فیملی غریب کی بیٹی کو اپنے گھر کی بہو بنانے سے گریز کرتی ہے۔

                اسلام میں بیٹیوں کو وراثت میں حق دیا گیا ہے۔ انہیں ہندوئوں کی طرح جہیز دے کر وراثت کے حق سے محروم نہیں رکھا جاتا۔ اگر کوئی والدین اپنی بیٹی کو شادی پر سازوسامان دے بھی دیں پھر بھی وراثت میں لڑکی کو اس کا حصہ دیا جاتا ہے کیونکہ اسلام میں بیٹی کو وراثت میں حصہ دینے کا حکم دیا گیا ہے۔ کتنی شرم کی بات ہے کہ ایک مرد جب عورت اور اس کے گھر والوں کے آگے جہیز کے لئے ہاتھ پھیلاتا ہے تو کیا یہ اس کی مردانگی کی توہین نہیں؟ بیٹی کو بیاہنے میں والدین کنگال ہو جاتے ہیں۔ ہر ماں باپ اپنی عزت قائم رکھنے کے لئے بیٹی کو اس کی شادی پر اپنی پہنچ سے زیادہ جہیز دیتے ہیں تاکہ معاشرے میں ان کی عزت ووقار قائم رہ سکے۔ پہلے اولاد کو پال پوس کر بڑا کرتے ہیں اور پھر قرضہ لے کر اس کی شادی کرتے ہیں اور ساری زندگی قرضہ اتارنے میں گزار دیتے ہیں۔ یہ ایک اسلامی معاشرے کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ آج ہمیں جہیز جیسی لعنت سے بچنے کی ضرورت ہے اور ان تمام والدین کیلئے ایک سبق ہے کہ اسلام میں جہیز کا کوئی تصور نہیں لہٰذا اپنی بیٹی کی ایسی جگہ شادی کریں جہاں ان کی بیٹی کی جہیز کے بغیر عزت کی جائے اور لڑکے کے والدین کو بھی چاہئے کہ اپنا بیٹا فروخت کرنے کی بجائے اور کسی کی بیٹی کو جہیز میں تولنے کی بجائے اپنی بیٹی بنا کر گھر میں لائیں تاکہ ایک خوشحال معاشرہ وجود میں آسکے اور اسلام کی بتائی ہوئی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر آخرت کیلئے سرخرو ہوسکیں۔